Monday, April 29, 2024
Assalam Alaikum Wa Rahmatullah Wa Barakatahu

مقامِ رضاہی مقام عبدیت ہے

مقامِ رضاہی مقام عبدیت ہے

 

سورہ کہف کوسمجھنے کیلئے کئی سال اورسینکڑوں اردو،عربی اورفارسی تفاسیرکامطالعہ کرنے کے بعداس نتیجے پرپہنچاہوں کہ ہم اس سورۃ کوصرف غاروالوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگراصل مدعاکی طرف کسی کی نظرہی نہیں گئی۔دراصل اس سورہ کالب لباب یا مرکزی خیال تویہ ہے کہ اللہ اس دنیامیں لوگوں کوآٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں،عزت، ذلت، صحت، بیماری، نفع، نقصان، خوشی ،غمی۔اس دنیامیں ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتاہے ۔ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہوں گے تو یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے۔یعنی یا تو بندہ عزت میں ہو گایا ذلت میں۔ یاصحت ہوگی یا بیماری۔ تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے،کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکرکرتاہے یانہیں اوربرے حالات میں صبرکرتاہے یانہیں۔

تودوپیپربنے ایک شکرکاپیپراوردوسراصبرکاپیپر۔اب اگربندے نے اچھے حالات میں شکرکیاتواس نے پیپرکوپاس کیااوراگرناشکری کی تواس پیپرمیں فیل ہو گیا۔ اور اگرصبرکے پیپرمیں صبرکیاتوپاس،اوربے صبری کی توفیل ہوگیا۔یہ زندگی دارالامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپردینے ہیں ایک صبرکادوسراشکرکا۔اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کوپیداکیااوران کوبھی ان دوپیپرزمیں آزمایا۔پہلاشکرکاتھاجو کہ جنت کی نعمتیں تھیں،دوسرادرخت کاپھل تھاجوکھانے سے منع کیاگیاتھاتویہ صبرکاپیپرتھاجس میں شیطان نے ان کوکامیاب نہ ہونے دیا۔

سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔حضرت آدم علیہ اسلام کاواقعہ،یہ قلب ہے اس سورت کا۔ آیتیں تھوڑی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی۔ آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دوواقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے یہ وہ نوجوان تھے جنہوں نے صبرکاامتحان دیااوراس پیپر میں پاس ہوکرمقبول بندوں میں شامل ہوگئے،دوسراواقعہ دوباغوں والے شخص کاتھا،یہ بھی عام شخص تھاجس کومال ودولت دی گئی تھی،اس کا پیپرشکرکا تھا کہ تم نے نعمتوں پرشکرکرناہے تویہ فیل ہوگیا۔اس کے بعدآدم علیہ السلام کاواقعہ اورپھردوواقعات ہیں خواص کے۔ایک موسٰی علیہ السلام کاکہ ان سے بھی صبرکاپیپرلیاگیااورسکندرذوالقرنین کاشکرکاپیپرتھااورانہوں نے غروروتکبرنہیں کیااورشکرکاپیپرپاس کیا۔اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبراور شکر کے پیپر لیتے ہیں۔
اوّل:اللہ نے اس سورۃ کی شروعات میں اپنی الوہیت کاذکرکیااورختم اپنی ربویت کے تذکرے پرکیا۔
دوم:شروع سورۃ میں اپنے رسولﷺکی عبدیت کاتذکرہ کیااوراختتام ان کی بشریت پرکیا۔
سوم:انسان کیلئے دنیامیں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے۔اسی لئے انسان ذکرکرتاہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آجائے۔اب صرف محبت کاآ جانامقصودنہیں ہے،جب محبت آجائے توپھرمحب ہمیشہ محبوب کوراضی کرنے کی فکرمیں رہتاہے اوررضاکیاہے اللہ کی تقدیرپرراضی رہنا،اگراللہ اچھے حالات بھیجے توشکرکرنااوربرے حالات میں صبرکرنا۔جب بندے کویہ مقامِ رضاحاصل ہوجائے تو پھراس کومقام عبدیت حاصل ہوجاتاہے۔عبدکالفظ اللہ نے اپنے حبیب کیلئے استعمال کیا۔مفسرین کی نظرمیں عبدوہ ہوتاہے جس کواپنے آقا کے سواکچھ نظرنہ آئے۔بعض کے نزدیک عبدوہ ہوتاہے جواپنے آقاسے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا،ہرحال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔ چونکہ اس سورہ کودجال سے حفاظت کیلئے پڑھنے کاذکراحادیث میں آتاہے۔اس لیےکہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔

پہلے دجال کے معنی کوسمجھیں کہ یہ دجل سے نکلاہے دجل فریب کوکہتے ہیں اورملمع سازی کرنے کوکہتے ہیں جس طرح تانبے پرسونے کاپانی چڑھادیاجائے تووہ اوپرسے کچھ ہوگااوراندرسے کچھ ،اسی طرح دجال بھی اندرسے کچھ اورہوگااورباہرسے کچھ اور ۔آج کے دورمیں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپرسے توخوش نما نظرآتی ہے مگراندرسے کچھ اورہے۔آج کے دورمیں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے۔اب اس دورمیں اگراپناایمان بچاناہے توہمیں بھی کہف میں گھسناہوگا۔جی ہاں کہف میں! آج کے زمانے میں پانچ کہف ہیں۔اگرانسان ان میں داخل ہوجائے تووہ دجال کے فتنے سے بچ سکتاہے۔

ان میں پہلا کہف ہے مدارس،ان میں جوداخل ہوجائے وہ اپناایمان بچانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
دوسرااللہ والوں کی خانقاہیں،جولوگ اللہ والوں سے جڑجاتے ہیں تووہ لوگ زمانے کے فتنے اورفساد سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
تیسرادعوت وتبلیغ کاکام،یہ بھی کہف کی مانند ہے۔جودعوت وتبلیغ کاکام شروع کریں گے تواس کیلئے یقیناًسب سے پہلے اپنی اصلاح، اپنے گھروالوں کی اصلاح، اپنے محلے،علاقے سے کام بڑھتاہواپھرملک کی اصلاح کی طرف بڑھے گاکہ بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کراللہ کی غلامی میں لانے کیلئے آپ کے شب وروزصرف ہونے شروع ہوجائیں گے،اس سے آپ نہ صرف اپنابلکہ اپنے گھروالوں کے ساتھ اپنے احباب کادین محفوظ کرلیتے ہیں۔
چوتھا ہے قرآن مجید،جوقرآن سے نتھی ہوجاتاہے،اس کوپڑھنا،سیکھنا،سمجھناشروع کردیتاہے تویہی قرآن زندگی کے ہرلمحے کیلئے کہف بن جاتا ہے۔
پانچواں مکہ اورمدینہ:یہ پانچواں کہف ہے۔احادیث کے مطابق جوبھی ان شہروں میں داخل ہوگیا،وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا۔تویہ پانچ کہف ہیں جن میں داخل ہونے سے انسان اپنے ایمان کوبچالیتاہے اوردجال سے محفوظ ہوجاتاہے۔ اس سورت کاہرواقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتاہے کہ کس طرح ہم نے خودکو دجال سے بچاناہے۔

اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملاکہ ہم کواپنے ایمان کی حفاظت کیلئے بالائی سطروں میں جن پانچ کہف کاذکرکسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپناایمان بچا لیں اوردجال سے محفوظ رہیں۔

صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا کہ اللہ نے جومال دیااس کواپنی طرف منسوب نہ کرے جیساکہ اس باغ والے نے کیااورپکڑ میں آگیااوراس نعمت سے محروم کردیاگیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیاہمارے لئےداراقامت ہے ،ہمارااصلی وطن جنت ہے دنیامیں رہ کردنیاکو اپنااصلی وطن سمجھ لینااورساری محنتیں اورساری امیدیں دنیاپرلگادینابےوقوفی کی بات ہے۔شیطان بدبخت نے ہمیں چھوٹی قسمیں کھا کھاکراصلی وطن سے نکالاتھا ، اب یہاں بھی یہ ہمارادشمن ہے اورہم سے گناہ کرواتاہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں۔ اللہ شرسے بچائے اورہمارے اصلی گھرجنت میں پہنچا دے۔آمین۔ موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتاہے کہ ہم دنیامیں جتنابھی علم حاصل کرلیں،دنیامیں کوئی ناکوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا ۔ انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔

جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں توپھرہم دجالی فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام کاواقعہ بیان کردیاتاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتاہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کوجانتے ہیں۔علم اوربھی اس سے کہیں زیادہ ہے جوہمارے پاس نہیں ہے،اسی لیئے سورہ کہف انسان کودجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اوراس کی ذہن سازی کرتی ہے اورایساذہن بناتی ہے کہ بندہ کاذہن محفوظ ہوجاتاہے۔حضرت ذوالقرنین کے واقعے سے یہ سبق ملتاہے کہ حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست رشتے دارنہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوںکہ وہ توان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھربھی انہوں نے ان لوگوں کی مددکی کیوںکہ وہ اللہ کی رضا کیلئے اللہ کے بندوں کے بندوں کونفع پہنچاتے تھے۔ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہاکہ ہم آپ کواس کیلئے پیسے دیں گے توانہوں نے انکارکردیا۔ دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پراللہ کا قانون نافذ کرتے تھے۔جب ان کواختیاردیاگیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جوسلوک چاہیں کریں،مطلب چاہیں توسزادیں یااچھا سلوک کریں توانہوں نے اس قوم کواللہ کی طرف بلایاتھا اوراپنے اختیار/طاقت کو اللہ کے قانون کے نفاذمیں استعمال کیا۔

سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کرکے بندے کے ذہن سازی کی گئی اوراب آخری آیات میں اس ساری سورت کانچوڑتین باتوں میں بیان کیاگیاہے:
1-جولوگ دنیاہی کوبنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ہروقت دنیااوراس کی لذات کوپانے کی فکر میں رہناہے،دجالی فتنہ ہےلہندافقط دنیاہی کی فکرمیں نہ رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔
2-اس کے بعداللہ نے اپنی صفات کوبیان فرمایاکہ اگرتم اہنے رب کی تعریفوں کوبیان کرواورسمندرسیاہی بن جائیں اوردوسراسمندربھی اس میں ڈال دیا جائے توتم پھربھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کرسکوگے۔
3-آخرمیں بتایاکہ جواپنے رب کادیدارکرناچاہے،جوکہ سب سے بڑی اورسب سے بڑھ کرنعمت ہے،اس کاکیاطریقہ بتایاکہ وہ شخص دو کام کرے ایک نیک عمل اوردوسرااپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اورجوایساکرے گااللہ اس کواپنادیدارعطاکریں گے۔

یہ میرے رب کی کوئی خاص حکمت عملی ہے یاکوئی آزمائش ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعدجلدہی اوراس کے باسیوں کوقوم کی پشتیبانی فرمانے والوں کی جدائی اوریتیمی کاغم برداشت کرناپڑگیااورہمیں حالات کے طوفان بلاخیزکی متلاطم لہروں کامقابلہ کرناپڑگیااور باوجودلاکھ کوتاہیوں کہ صفرسے آغازکرنے والی یہ قوم ترقی کرتے کرتےجوہری طاقت بن چکی ہے۔ہاں!یہ بات ضرورہے کہ ہم ابھی تک اسے صحیح معنوں میں قائداعظمؓ کاپاکستان نہیں بناسکے اوراپنی قومی زندگی کے مختلف شعبوں کوبانی پاکستان کے نظریات و تصورات کے مطابق استوارنہیں کرسکے۔دوقومی نظریہ کی بنیادپر پاکستان کی بنیادہی اسی لئے رکھی گئی کہ ہم ارضِ وطن کوایسے کہف میں تبدیل کردیں جہاں ایمانی استقامت اور دجالی فتنوں سے بچنے کیلئے ہمیں پناہ ملے۔

محمدعلی جناحؒ نے اس مملکت کوحضوراقدسﷺکاروحانی فیضان قراردیاتھالہٰذابارگاہ رسالت مآبﷺسے عطاکردہ اس نعمت کی قدر ومنزلت اور حفاظت ہرپاکستانی پرواجب ہے۔اس کی ناقدری اورخیانت کرنے والے نہ صرف دنیابلکہ آخرت میں بھی رسواہوگئے وجہ اس کی یہ ہے کہ بابائے قوم جب قائداعظمؒ حصولِ آزادی کیلئےمصروف تھے توان کے ذہن میں ایک آزاداسلامی مملکت کاجو تصوّرتھا،وہ مسلمانانِ برصغیر کے سوادِ اعظم کی آرزوؤں اور امنگوں کاترجمان تھا۔ان کے ذہن میں ایک ہی بات نقش تھی کہ برصغیر پاک وہند میں مسلمان اپنی ایک ایسی اسلامی،فلاحی اورجمہوری مملکت قائم کریں جہاں وہ حضورِ پاک ؐکے عطا کردہ آئین کی روشنی میں زندگی گزاریں۔اس امرکوایک المیے سے ہی تعبیرکیاجاسکتاہے کہ ایک طرف ہم نے من حیث القوم اوردوسری طرف برسرِاقتدار طبقے اورحاکمانِ وقت نے قائداعظمؒ کے تصورات کوعملی جامہ پہنانے میں مجرمانہ غفلت وکوتاہی کامظاہرہ کیا۔اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیامِ پاکستان کے مخالفین اوردینِ اسلام کے ناقدین نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس ملک میں لادینی نظریات کو فروغ دینے کی مہم چلائی۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج اپنی سیاسی ابتری کے ایسے بھنورمیں غوطے لگارہے ہیں جہاں منزل دورہوتی جا رہی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اوربعدکے دور میں قائداعظمؒ کے ایسے متعدد بیانات موجودہیں جن میں بڑی صراحت سے بیان کردیاکہ پاکستان میں نظامِ حکومت صرف اورصرف دینِ اسلام اورقرآن کی روشنی میں وضع کیاجائے گا۔

13جنوری1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایاتھا:
“ہم نے پاکستان کامطالبہ ایک زمین کاٹکڑاحاصل کرنے کیلئےنہیں کیاتھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرناچاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کوآزما سکیں۔”

بابائے قوم کی تقاریروبیانات سے یہ امرروزِروشن کی مانندواضح ہوجاتاہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظریہ حیات کے اصولوں پر مبنی ریاستی اورسماجی ڈھانچے کی تشکیل کے خواہش مندتھے اورمسلمانانِ برصغیر کیلئےمحض ایک آزاد مملکت کاقیام ہی ان کا مقصودنہ تھابلکہ اصل مقصدیہ تھاکہ مسلمان وہاں آزادی کے ساتھ اپنے ضابطہ حیات اپنی تمدّنی روایات اوراسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔آزاد مملکت میں آئین وحکومت کے حوالے سے بھی قائداعظمؒ کے تصورات بڑے واضح تھے۔ایک مرتبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ سے دریافت کیاگیاکہ پاکستان کاآئین کس طرح کاہوگاتوآپ نے جواب میں فرمایا:
“میں کون ہوتاہوں آپ کوآئین دینے والا،ہماراآئین توہمیں آج سے تیرہ سوسال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبرؐﷺنے دے دیاتھا۔ہمیں تو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذکرناہے اوراس کی بنیادپراپنی مملکت میں اسلام کاعظیم نظامِ حکومت قائم کرنا ہے اور یہی پاکستان ہے”۔

قائداعظمؒ کے نزدیک دینِ اسلام نہ صرف مسلمانوں کی نجی زندگی کے رہنمااصول فراہم کرتاہے بلکہ اپنے پیروکاروں سے اپنی سیاسی،معاشی،معاشرتی اور پوری اجتماعی زندگی کوبھی اسلامی نہج پراستوارکرنے کاتقاضاکرتاہے۔قائداعظمؒ پاکستان کوایک اسلامی ریاست بنانے کے متمنی تھے نہ کہ ایک سیکولرریاست جیساکہ آج کل ہمارے کچھ نام نہاددانشوراوربزعم خویش مؤرخ ثابت کرنے کیلئےایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں۔بابائے قوم نے اغیارکی پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کودورکرنے کیلئےبارہااپنی تقاریرمیں واضح کیا کہ پاکستان میں اسلام پرنظامِ حکومت کے سواکسی دوسرے نظریے یااِزم کی کوئی گنجائش نہ ہوگی۔

پاکستان کی اقتصادی پالیسی کے بارے میں آپ کی تقاریروبیانات سے یہ امرواضح ہے کہ آپ جاگیرداروں اورسرمایہ داری نظام کو سخت ناپسندفرماتے تھے۔ آپ پاکستان میں غرباء کیلئےمعیارِمعیشت بلندکرنے کے خواہاں تھے اورپاکستان کے اقتصادی نظام کواسلام کے غیرفانی اصولوں پرترتیب دیناچاہتے تھے یعنی ان اصولوں پرجنہوں نے غلاموں کوتخت وتاج کامالک بنادیاتھا۔

11/اگست1947ءکی شہرہ آفاق تقریرمیں آپ نے فرمایاکہ:
اگرہم اس عظیم مملکت کوخوشحال بناناچاہتے ہیں توہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اوربالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبودپر مرکوزکرنی پڑے گی۔

 
 
Site Information